🔥 Burn Fat Fast. Discover How! 💪

THE ROYAL PAKISTAN ARMY تحریر سینٹر قاضی حسین احمد صاحب مرحوم | Takbeer Media

THE ROYAL PAKISTAN ARMY
تحریر سینٹر قاضی حسین احمد صاحب مرحوم
سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان

پشاور کے ایک بڑے گراؤنڈ میں فرنٹیر کور رجمنٹ کی سو سالہ تقریب میں صوبہ سرحد سے ممبر سینٹ کی حیثیت سے میں بھی شریک تھا۔ لاؤڈ سپیکر پر فرنٹیرکور رجمنٹ کا تعارف پیش کیا جا رہاتھا اوران کے کارناموں کے بارے میں شرکا کو آگاہ کیا جارہا تھا۔ گراﺅنڈ کے اندر پریڈ ہورہی تھی ۔ سب سے آگے مہمند رائفلز کا ایک دستہ انیسویں صدی کےآخر اور بیسویں صدی کے آغاز کے زمانے کا یونیفارم پہنے ہوئے جا رہاتھا۔ سپاہیوں نےگھٹنےسے نیچے تک لٹکے ہوئے جانگیے پہنے ہوئے تھے اور ان کی داڑھیاں ایک قبضے سے بڑھی ہوئی سنت رسول کے مطابق تھیں۔ ہاتھوں میں اس زمانے کی جدید ترین رائفل تین سو تین (303)یا تھری ناٹ تھری پکڑے ہوئے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ دستہ فرنٹیرکور رجمنٹ کا پہلا دستہ تھا۔ ان کے بعد دوسرے دستوں کا تعارف بھی کرایا گیاجنہوں نے اپنے دور میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے تھے۔ پریڈ کے خاتمے پر چائے کی تقریب تھی۔ تقریب میں ان بوڑھے ریٹائرڈ برطانوی افسروں سے بھی ملاقات ہوئی جوخاص طور پر اس تقریب میں شرکت کے لیے برطانیہ سے بلائے گئے تھےاورجنھوں نے اپنی جوانی میں فرنٹیرکورکے مختلف دستوں کی کمان کی تھی ۔

میں نے فرنٹیر کور کے ایک سینئر افسر سے پوچھنے کی جسارت کی کہ یہ مہمند رائفلزجو آپ کی فرنٹیر کوررجمنٹ کا پہلا دستہ تھا اور پہلا دستہ ہونے کی وجہ سے جن کے کارناموں کو آج بھی آپ لوگ یا د کرتے ہیں، کن لوگوں کے خلاف نبرد آزما تھا۔ پاکستانی افسرمیرا مدعا سمجھ گئے، اس لیے میرے سوال کا سیدھا جواب دینے کی بجائے گریز کرنےلگے تومیں نے ان سے پوچھا کہ کیا یہی وہ لوگ نہیں تھے جو آزادی کے عظیم مجاہد اور تحریک اصلاحِ افاغنہ کے بانی عظیم مصلح حاجی صاحب ترنگزئی کے خلاف مہمند کی پہاڑیوں میں انگریزوں کی طرف سےلڑرہے تھے۔
وہ کھسیانے ہوگئے۔
میں نے پھران سے پوچھا کہ کیا ہم حاجی صاحب ترنگزئی کو اپنا ہیرو سمجھیں یا فرنٹیر کورکےاس پہلے دستے مہمند رائفلزکو اپنے لیے مثال بنائیں۔ انھوں نے جواب دیاکہ یہ ہماری تاریخ ہے۔

کچھ دن بعد صوبہ سرحد کے گورنر ہاؤس میں میری ملاقات اس وقت کے گورنر ریٹائرڈ میجرجنرل خورشید علی خان سے ہوئی۔ میں نےان سے پوچھا کہ پاکستانی فوج دور برطانیہ کی اپنی روایات کو برقرار رکھنے پر کیوں مصر ہے۔ انھوں نے بے تکلفی سے بتایا کہ ہمیں تو اپنے فوجی یونٹ کی پوری تاریخ پڑھائی جاتی ہے اور اس میں یہی درج ہوتاہے کہ ”دشمن “ کا ہم نے کس طرح پیچھا کیا اور "دشمن"نے کیا کیا طریقے اختیار کیےاور ہم نے کس طرح دشمن کے ہتھکنڈوں کا توڑ کیا۔
یہ "دشمن"حاجی صاحب ترنگزئی یا اسی طرح کے دوسرے انگریز دشمن مجاہد ہی تھے اورہمارے یونٹ ان کے خلاف نبردآزما تھے۔ یہ ہماری روایات اور ہماری تاریخ ہے اور پاکستانی فوج ان روایات کی وارث ہے۔
ہمارے مسائل کی جڑیہی ہے کہ برطانوی راج نے ہندوستان میں جواینگلو سیکسن Anglo Saxon نظام قائم کیا اور جس نظام کے تحت انھوںنے مقامی باشندوں پر حکمرانی کی۔ اس نظام کو قائم رکھتے ہوئے برطانوی سامراج کی وارث انتظامیہ (Establishment) اب تک عوام پر حکمران ہے ۔ یہ انتظامیہ نہ صرف برطانیہ اورسامراجی ممالک کی تہذیب و تمدن کی محافظ ہے بلکہ ان کے معاشی مفادات کی بھی نگران ہے۔ برطانوی سامراج نے جانے سے پہلے یقینی بنا لیاتھاکہ نام نہاد آزادی کے باوجود ان کے بعد ان کی قائم کردہ انتظامیہ کی مضبوط گرفت برقرار رہے۔ ان کی زبان ،ان کی ثقافت اور ان کی تہذیب پھلتی پھولتی رہے اور ان کے معاشی مفادات محفوظ رہیں چنانچہ آزادی کے 61 سال گزرنے کے بعد ہم اپنی زبان سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ اقبال کا فارسی کلام ایران ،وسط ایشیا اور افغانستان میں تو سمجھا جاسکتاہے لیکن پاکستانی قوم اس سے قطعاً نابلد ہوچکی ہے بلکہ اب تو اردو سے بھی نئی نسل نا آشنا ہو رہی ہے۔ جب ہم کہیں بات کرتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ ذرا آسان اردو میں بات کریں، مطلب یہ کہ انگلش نما اردو میں بات کی جائے۔ اپنی زبان سے نا بلد ہونے کی وجہ سے ہماری نئی نسل ندرت خیال (Original Thinking)سے محروم ہو رہی ہے اور ہم محض نقالوں کی قوم بن رہے ہیں۔
چند سال قبل ملا کنڈ ایجنسی کے ایک گاﺅں ”ملاکنڈ “ کے باشندوں نے مجھ سے شکایت کی کہ ملاکنڈ کئی نسلوں سے ہمارا گاﺅں ہے۔ اس کی مٹی میں ہمارے آباﺅ اجداد کی ہڈیاں ملی ہوئی ہیں،مگر اب پاکستانی فوج ہمیں اپنے گاﺅں سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہم نے 1887ءمیں اس علاقے کو فتح کیاتھا، اس لیے یہ ہمارا مفتوحہ علاقہ ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ پاکستان کی وزارت دفاع نے ایک خط میں انھیں یہ لکھ دیا تھا کہ ہم نے اس علاقے کو 1887ءمیں فتح کیا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پاکستانی فوج آج بھی اپنے آپ کو برطانوی سامراج کی وارث سمجھتی ہےاوران کےمفتوحہ علاقوں کو اپنا مفتوحہ علاقہ قرار دیتی ہے۔ (کالم سے ایک اقتباس)